بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس تقریر کو پی ڈی ایف میں ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے
FOR PDF DOWNLOAD
جناب صدر صاحب، اساتذہ کرام اور میرے عزیز ساتھیو!
سب سے پہلے میں تمام ہندوستانی شہریوں کو یوم آزادی کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اس کے بعد وطن عزیز کی آزادی کی خاطر جان نچھاور کرنے والے شہدائے وطن اور تمام مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں
جیسا کہ اپ کو معلوم ہے 15 اگست سن 1947 کو ہمارا ملک انگریزوں کے ناپاک چنگل سے آزاد ہوا ،اج ہم اسی کی سالگرہ منا رہے ہیں، پورے ملک میں جشن کا ماحول ہے، خوشیاں منائی جا رہی ہیں، ہر ہندوستانی کا چہرہ خوشی سے چمک دمک رہا ہے، ہر لبوں پہ مسکراہٹ ہے، بچے بھی خوشی سے جھوم جھوم کر قومی اور ملی ترا نے گا رہے ہیں ۔
لیکن ساتھیوں ! سوال یہ ہے کہ خوشی کا یہ موقع ،کیا انگریزوں کی طرف سے سونے کی تھالی میں سجا کر ہمیں بھینٹ کیا گیا تھا ؟؟؟؟؟
نہیں !نہیں! سو بار نہیں! 15 اگست سن 47 کو ملنے والی اس آزادی کے پیچھے، بڑی المناک اور دندراک داستانیں ہیں، جنہیں پڑھ کر کلیجہ منھ کو آنے لگتا ہے ،وطن عزیز کی آزادی کی خاطر ہزاروں نہیں، لاکھوں ہندوستانیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، تب کہیں جا کر آزادی نصیب ہوئی، ایسٹ انڈیا کمپنی نے کلکتہ کو اپنا مرکز بنایا ،ڈائمنڈ ہاربر اور فورٹ ولیم ان کا مضبوط گڑھ تھا، نواب علی وردی خان نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ناپاک عزائم کو بھانپ لیا ، اور 1754 میں فورٹ ولیم پر حملہ کر کے، وہاں سے نکال بھگایا، ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف یہ پہلی مسلح جنگ قرار دی جا سکتی ہے ، اس کے بعد نواب سراج الدولہ کے ساتھ 1757 میں پلاسی کی مشہور جنگ ہوئی، لیکن میر جعفر کی غداری کی وجہ سے سراج الدولہ کو شکست ہوئی اور مرشد اباد میں انہیں شہید کر دیا گیا ۔
ساتھیو! بکسر کی جنگ بھی تاریخ کے صفحات میں درج ہے شاہ عالم، نواب شجاع الدولہ اور میر قاسم کی فوجوں نے مل کر مقابلہ کیا تھا۔
ادھر دکن کے فرمانروا حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے ذکر کے بغیر جنگ آزادی کی تاریخ ادھوری رہ جائے گی اور باپ بیٹے نے انگریزوں سے چار جنگیں لڑی ہیں، ٹیپو سلطان کی انگریز فوجوں کے ساتھ زبردست معرکی آرائی ہوئی، لیکن سپہ سالار میر صادق کی غداری کی وجہ سے، شکست سے دوچار ہونا پڑا، اخر کار چار مئی 1799 ، سرنگا پٹنم کے میدان میں، انگریزوں سے لڑتے ہوئے ،شیر میسور، ٹیپو سلطان نے جام شہادت نوش کر لیا، اور کہا کہ ’’گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے شیر کی ایک زندگی ایک دن کی زندگی اچھی ہے‘‘ تب انگریز افسر نے سلطان شہید کی لاش پر کھڑے ہو کر یہ الفاظ کہے تھے کہ’’ اج سے ہندوستان ہمارا ہے۔
1803 میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے، ہندوستان کو دار الحرب قرار دے کر ،انگریزوں کے خلاف جہاد کا وہ مشہور فتوی دیا ،جس کی پاداش میں انہیں بڑی بڑی تکلیفیں اور صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، انہیں کے دو شاگرد سیدہ احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ نے پورے ملک کا دورہ کر کے مسلمانوں سے جہاد کی بیعت لی، اور اس بات کا عہد و پیمان لیا ،کہ وطن کی آزادی کی خاطر اپنی جان تک قربان کر دیں گے، اور 1831 میں بالاکوٹ کے میدان میں انگریز فوجوں کے ساتھ لڑتے ہوئے، دونوں حضرات شہید ہو گئے، اس جنگ میں ہزاروں مسلمان بھی شہید ہوئے ۔
بالاکوٹ کی ناکامی کے بعد علماء ملک گیر سطح پر انگریزوں کے خلاف ایک بڑے محاذ کی تیاری کر رہے تھے ،کہ اچانک 1857 میں میرٹھ کی انگریز فوج میں ہندوستانی سپاہیوں نے بغاوت کر دی، اور دہلی کی طرف کوچ کر گئے، دہلی جنگ کا مرکز بن گیا،ہر طرف سے مجاہدین کا جتھہ دہلی پہنچنے لگا ،اس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوئے، لیکن تاریخی سچائی یہ ہے کہ مسلمانوں کی غالب اکثریت تھی ،اسی دوران مولانا فضل حق خیر آبادی نے، دلی کی جامع مسجد سے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی شائع کیا، مولانا احمد اللہ مدراسی ،مولانا رحمۃ اللہ کیرانوی ،مولانا قاسم نانوتوی ،مولانا رشید احمد گنگوہی ،مولانا جعفر تھانیسری، مولانا فضل حق خیرابادی ،جیسے بے شمار چوٹی کے علماء، اس جنگ کی قیادت کر رہے تھے، انگریزوں نے دہلی کا محاصرہ کر لیا، اور چار ماہ تک محاصرہ کیے رکھا ،بڑی خون ریز لڑائیاں ہوئیں، لیکن بدقسمتی سے اس جنگ کا نتیجہ بھی ہندوستانیوں کی شکست پر تمام ہوا ، بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرکے رنگون بھیج دیا گیا، انگریز ،علماء اور مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو گئے، اسی لیے دہلی پر قبضے کے بعد مسلمانوں سے خوفناک انتقام لیا ،بے دریغ لوگوں کو قتل کیا گیا، علماء کو چن چن کر پھانسی کے پندے پر لٹکا دیا گیا ،کہا جاتا ہے کہ 19 ہزار علماء کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ،ہزاروں لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا ،بہتوں کو توپوں کے دہانے پر رکھ کر اڑا دیا گیا، اور بہت سارے علماء کو جزیرہ انڈمان میں موت سے بدتر زندگی جینے پر مجبور کر دیا گیا ،مولانا فضل حق خیرآبادی تو وہیں وفات پا گئے مولانا جعفر تھانیسری 18 سال قید با مشقت کے بعد وطن واپس ائے ،تو اپنی کتاب کالا پانی میں لکھتے ہیں کہ ’’ ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پیروں میں بیڑیاں، جسم پر لوہے کا لباس، اور کمر پر لوہے کی سلاخیں تھیں ، انگریزوں نے ہم تین علماء کے لیے خاص لوہے کی قفس تیار کروائی، اور ہمیں اس میں ڈال دیا گیا اس پنجڑے میں میں لوہے کی چونچدار سلاخیں بھی لگوائیں جس کی وجہ سے نہ ہم سہارا لے سکتے تھے اور نہ بیٹھ سکتے تھے، ہماری انکھوں سے انسو، اور پیروں سے خون بہہ رہے تھے۔
ساتھیو وطن عزیز کی آزادی کی تاریخ کتنی المناک ،دردناک، اور اذیت ناک ہے ۔
شعر جب پڑا وقت گلستاں پہ، تو خوں ہم نے دیا جب بہار آئی تو کہتے ہیں ، تمھارا کام نہیں
ساتھیو ! دار العلوم دیوبند کے شاگرد اول جنہیں دنیا شیخ الہند محمود حسن دیوبندی کے نام سے جانتی ہے 1912 میں ریشمی رومال تحریک کی بنیاد ڈالی، اس تحریک سے انگریزوں کے پسینے چھوٹ گئے ،مولانا عبید اللہ سندھی اس تحریک کے روح رواں تھے ، جو ملک اور بیرون ملک اس تحریک کو لے کر سرگم عمل تھے، اسی کی پاداش میں حضرت شیخ الہند کو گرفتار کر کے مالٹا کی جیل بھیج دیا گیا۔
1919 میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو کو گرفتار کر جیل میں ڈال دیا گیا ،تو جلیاوں والا باغ میں ایک زبردست مظاہرہ ہوا ،بے رحم انگریز افسر جنرل ڈائر نے، نہتھی عوام پر بے دریغ فائرنگ کی اور اندھا دھن گولیاں برسائیں ،جس کے نتیجے میں 70 سے زیادہ مسلمان شہید ہو گئے، جسے اپ ’’جلیاں والا باغ ہتیا کانڈ ‘‘کے نام سے جانتے ہیں۔
مولانا محمد علی جوہر نے’’تحریک خلافت‘‘ کی بنیاد ڈالی جس سے ہندو مسلم اتحاد عمل میں آیا، گاندھی جی نے علی برادران کے ساتھ پورے ملک کا دورہ کیا ،یہی مولانا محمد علی جوہر، گول میں اس کانفرنس میں شرکت کرنے لندن گئے ،تو وہیں وفات پا گئے ۔
1920 میں گاندھی جی اور مولانا ابوالکلام آزاد نے’’ اسہیوگ اندولن ‘‘چھیڑا جو بہت کارگر ثابت ہوا ۔
1942کو وردہ میں ہونے والی ،کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں طے پایا کی ایک بڑی سول نافرمانی کی تحریک چلایا جائے ، گاندھی جی اور مولانا ابو الکلام آزاد نے زوردار تقریریں کیں ، گاندھی جی نے’’ کرو یا مرو‘‘ کا نعرہ دیا ۔ اور 9ن اگست 1942 کو ’’ بھارت بچھوڑو‘‘ تحریک کا بگل بجایا، اور پورے بھارت کی سڑکوں پر بھارت چھوڑو کا نعرہ گونجنے لگا، تو انگریز حکام حواس باختہ ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے تقریبا پوری کانگریس قیادت گرفتار کر لی گئی، اور پورے ملک میں لاکھوں لوگوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ۔
میں ایک بار پھر سبھاش چندر بوس ،سردار بھگت سنگھ، منگل پانڈے ،مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، سردار پٹیل ،لال بہادر شاستری ،مولانا محمود حسن دیوبندی، حسین احمد مدنی ،محمد علی جوہر، حسرت موہانی، اشفاق اللہ خان، مولانا الکلام ازاد، اور دوسرے تمام مجاہدین ملت ،اور شہدائے وطن کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو ! اپ نے دیکھا کہ سن 47 کی صبحِ آزادی تک، مسلمان ہر میدان کارزار کی صف اول میں رہے، ہر جنگ میں ہراول دستہ بنے، ہر تحریک میں قائدانہ رول ادا کیا ،کالے پانی اور مالٹا کی جیلوں میں بھرے ہوئے نظر آئے، وطن عزیز کی آزادی میں ،مسلمانوں کا کردار اور شہادت روز روشن کی طرح عیاں ہے، مگر بدقسمتی سے ایک منظم اور سوچی سمجھی سازش کے تحت، آج مسلمانوں کی سنہری تاریخ کو مسخ کرنے، اور مٹانے کی ناپاک کوشش کی جا رہی ہے، اور آزادی کی تاریخ کو’’ مسلم مکت ‘‘بنایا جا رہا ہے، اتنا ہی نہیں مسلمانوں کو بے وفا، اور غدار تک کہا جانے لگا ہے۔
شعر دل سے نکلے گی، نہ مر کر بھی وطن کی محبت میری مٹی سے بھی، خوشبوئ وفا آئیگی
انگریزوں کے’’ ڈیوائڈ اینڈ رول‘‘ کا فارمولا اپنا کر، نفرت کی سیاست کی جا رہی ہے، ملک نفرت کا غلام بن چکا ہے،
تو آئیے ہم عہد کرتے ہیں کہ ،ایک بار پھر متحد ہو کر ،نفرت کی سیاست اور نفرت کی غلامی سے وطن کو ازاد کرائیں گے۔
ہندوستان زندہ باد ، ہندو مسلم اتحاد زندہ باد