بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للّٰہِ و کفیٰ ،و سلامٌ علی عبادہ الذین اصطفی ، اما بعد!
قابل ِ صد احترام ، جناب ناظم صاحب ، صدر صاحب ، اساتذۂ کرام ، اور معزز حاضرین !
آزد ہندوستان کی تاریخ میں ، دو دن انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ، ایک ۱۵ ؍اگست ، دوسرے ۲۶ ؍ جنوری ، ۱۵ ؍ اگست ۱۹۴۷ ء کو ملک ، انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا تھا، اس لئے، ہر سال ، ۱۵ ؍ اگست کو جشن ِ آزادی منایا جاتا ہے، آزادی کے بعد ، ہندوستان کو اپنا قانون بنانے کے لئے ، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں ، ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ، جسے ملک کا قانون مرتب کرنے میں ، دو سال گیارہ مہینے ، اور اٹھارہ دن لگے، جسے ۲۶ ؍ نومبر ۱۹۴۹ ء کو ، قبول کر لیا گیا، اور ۲۴؍ جنوری ۱۹۵۰ کو ، تمام ارکان نے اس پر تستخط کر دیئے، اس کے بعد ، ۲۶ ؍ جنوری ۱۹۵۰ ء کو ، یہ آئین نافذ کر کے، پہلا جشنِ یوم ِ جمہوریہ منایا گیا، اسی لئے ہر سال ۲۶؍ جنوری کو، یوم ِ جمہوریت منایا جاتا ہے ۔
لیکن میرے عزیزو !۔۔جشن منانے کا یہ دن ، کوئی ایک دو انگلی کٹا کر نہیں ملا ہے، کوئی سال دو سال احتجاج کرکے نہیں ملاہے۔ اگر آپ ۱۸۵۷ ء سے بھی ، تاریخ کا حساب لگائیں ، تو نوے سال کی طویل جنگِ آزادی، اور بے شمار جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد ، آزادی اور جشن کا ، یہ دن میسر ہوا ۔
اور اس دوران ظلم و بربریت کی ایک طویل داستان لکھی گئی ، جس کا ہر صفحہ ہندوستانی مسلمانوں کے خو ن سے لت پت ہے، آزادی کے جذبہ کے ساتھ ، سر پر کفن باندھے ، اپنی تہذیب کی بقاء، اور وطنِ عزیز کی آزادی کی خاطر ، انگریز فوج کی توپوں،اور گولیوں کے آگے ، سینہ سِپَر ہونے میں ،مسلمان صفِ اول میں تھے ۔
میرے عزیزو ! آزادی کے بعد ، دستورِ ہند کی روشنی میں ، ہندوستان کو ایک جمہوری ، اور سیکولر ملک تشکیل دیا گیا ، چنانچہ دستور کے، ابتدائیہ میں، صاف لفظوں میں یہ لکھا گیا ہے ، کہ ’’ ہم ہندوستانی عوام ، تجویز کرتے ہیں کہ، ہندوستان کو، ایک آزاد، سماج وادی ، اور جمہوری ملک کی حیثیت سے، وجود میں لا جائے، ہر شہری کے لئے، سیاسی، سماجی، اور معاشی انصاف حاصل ہو ، خیالات اور اظہارِرائے کی آزادی ہو، مذہب ، عقیدہ، اور عبادات کی آزادی ہو، ہر شخص کے انفرادی تشخص، اور احترام کو یقینی بنایا جائے، اور ملک کی سالمیت ، اوریکجہتی کو قائم و دائم رکھا جائے‘‘۔
سامعین ِکرام !
الغرض:۔۔۔ ۲۶؍ جنوری ہمیں یاد دلاتا ہے، کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، یہاں کے دستور میں ، تمام فرقے، اور مذہب کے لوگوں کو ، یکساں حقوق دئے گئے ہیں ، اور ملک کی ترقی کے لئے، آئین کی بالا دستی ، اور قانون کی حکمرانی ضروری ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لئے آئیے ، ہم عہد کرتے ہیں، کہ آئین کے تحفظ ، اور قانون کی حکمرانی کے لئے ، ہمیں جو بھی قربانی دینی پڑیگی ، ہم اس سے گریز نہیں کریں گے ۔
یہ نفرت بری ہے نہ پالو اسے ۔۔۔۔۔۔۔۔دلوں میں خلِش ہے نکالو اسے
نہ تیرا نہ میرا نہ اِسکا نہ اُس کا ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وطن ہے ہم سب کا بچا لو اسے
اسی عزم کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتاہوں ۔
و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
اسکی پی ڈی ایف(PDF) فائل یہاں سے
کر سکتے ہیں.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنا تبصرہ ضرور درج کریں کیونکہ آپ کی ادنی رائے کسی کے لئے مشعل راہ بن سکتی ہے.