بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للّٰہِ و کفیٰ ،و سلامٌ علی عبادہ الذین اصطفی ، اما بعد! محترم عالی جناب ، ناظم صاحب، صدر مدرس صاحب، مشفق اساتذۂ کرام ، اور معزز حاضرین !
آج کا یہ تاریخ ساز دن ، جس کو ’’ جشنِ جمہوریت ‘‘ کےطور پر، ہر سال پورے ملک میں منایا جاتاہے، یہ ہم ہندوستانیوں کے لئے، قومی تہوار کا دن ہے، آج سے تقریباً، ۷۲ سال پہلے، پندرہ اگست ۱۹۴۷ ء کو، ہمارا ملک، انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا، انگریز یہ ملک چھوڑ کر چلے گئے، لیکن چونکہ ، ابھی ہندوستان کا کوئی آئین ، مرتب نہیں ہوا تھا، اس لئے، آزادی کے بعد بھی کچھ دنوں تک، انگریزوں کے ، آئین کے مطابق ہی، ملک کا نظام چلتا رہا، لیکن جلد ہی ، اس وقت کے ہمارے جو عظیم قومی رہنما تھے، ان لوگوں نے ، آپسی صلاح و مشورہ سے ، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی قیادت میں ،ایک قانون ساز کمیٹی بنائی ، اور اس کمیٹی نے ، دو سال گیارہ مہینے کی، انتہائی کوشش کے بعد ، قانونِ ہند مرتب کیا، اور ۲۶ ؍ جنوری ۱۹۵۰ ء کو، اس قانون کی ایک ایک کاپی ، پارلیمنٹ ، قانون ساز اسمبلی، اور عدلیہ کو سونپ دی گئی، کہ اب ملک کا نظام اسی آئین کے مطابق چلے گا، ہمارا یہ ملک، مختلف مذاہب ، اور مختلف قوموں کا گہوارہ ہے، یہاں ہر قسم کے لوگ بستے ہیں ، اور ہر مذہب کے ماننے والے یہاں موجود ہیں ، اس لئے دستورِ ہند میں ، تمام مذاہب ، اور تمام قوموں کی رعایت رکھی گئی ہے، اور آئین کی پہلی دفعہ یہ بنائی گئی کہ ’’ ہندوستان ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہے‘‘ ، یعنی ہندوستان کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے،بلکہ اس ملک میں ، ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے ، مکمل آزادی ہے، کہ یہاں کا ہر باشندہ ، اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کرتے ہوئے ، زندگی گذار سکتا ہے، دستورِ ہند کی یہ پہلی دفعہ ، در حقیقت ، یہی ہمارے ملک کی شناخت ہے، اور اسی پر عمل کر نے میں ، ملک ترقی کریگا، اور ملک کے اندر امنُ و سکون کا ماحول ، بنا رہے گا۔ علامہ اقبال کے ، اس شعر کے ساتھ ، میں اپنی بات ختم کرتا ہون کہ :
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ،
ہندی ہیں ہم ، وطن ہے ہندوستاں ہمارا،
وما علینا الا البلاغ ، والسلام ُعلیکم و رحمۃ اللہ
الحمد للّٰہِ و کفیٰ ،و سلامٌ علی عبادہ الذین اصطفی ، اما بعد!
قابل ِ صد احترام ، جناب ناظم صاحب ، صدر صاحب ، اساتذۂ کرام ، اور معزز حاضرین !
آزد ہندوستان کی تاریخ میں ، دو دن انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ، ایک ۱۵ ؍اگست ، دوسرے ۲۶ ؍ جنوری ، ۱۵ ؍ اگست ۱۹۴۷ ء کو ملک ، انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا تھا، اس لئے، ہر سال ، ۱۵ ؍ اگست کو جشن ِ آزادی منایا جاتا ہے، آزادی کے بعد ، ہندوستان کو اپنا قانون بنانے کے لئے ، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں ، ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ، جسے ملک کا قانون مرتب کرنے میں ، دو سال گیارہ مہینے ، اور اٹھارہ دن لگے، جسے ۲۶ ؍ نومبر ۱۹۴۹ ء کو ، قبول کر لیا گیا، اور ۲۴؍ جنوری ۱۹۵۰ کو ، تمام ارکان نے اس پر تستخط کر دیئے، اس کے بعد ، ۲۶ ؍ جنوری ۱۹۵۰ ء کو ، یہ آئین نافذ کر کے، پہلا جشنِ یوم ِ جمہوریہ منایا گیا، اسی لئے ہر سال ۲۶؍ جنوری کو، یوم ِ جمہوریت منایا جاتا ہے ۔
لیکن میرے عزیزو !۔۔جشن منانے کا یہ دن ، کوئی ایک دو انگلی کٹا کر نہیں ملا ہے، کوئی سال دو سال احتجاج کرکے نہیں ملاہے۔ اگر آپ ۱۸۵۷ ء سے بھی ، تاریخ کا حساب لگائیں ، تو نوے سال کی طویل جنگِ آزادی، اور بے شمار جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد ، آزادی اور جشن کا ، یہ دن میسر ہوا ۔
اور اس دوران ظلم و بربریت کی ایک طویل داستان لکھی گئی ، جس کا ہر صفحہ ہندوستانی مسلمانوں کے خو ن سے لت پت ہے، آزادی کے جذبہ کے ساتھ ، سر پر کفن باندھے ، اپنی تہذیب کی بقاء، اور وطنِ عزیز کی آزادی کی خاطر ، انگریز فوج کی توپوں،اور گولیوں کے آگے ، سینہ سِپَر ہونے میں ،مسلمان صفِ اول میں تھے ۔
میرے عزیزو ! آزادی کے بعد ، دستورِ ہند کی روشنی میں ، ہندوستان کو ایک جمہوری ، اور سیکولر ملک تشکیل دیا گیا ، چنانچہ دستور کے، ابتدائیہ میں، صاف لفظوں میں یہ لکھا گیا ہے ، کہ ’’ ہم ہندوستانی عوام ، تجویز کرتے ہیں کہ، ہندوستان کو، ایک آزاد، سماج وادی ، اور جمہوری ملک کی حیثیت سے، وجود میں لا جائے، ہر شہری کے لئے، سیاسی، سماجی، اور معاشی انصاف حاصل ہو ، خیالات اور اظہارِرائے کی آزادی ہو، مذہب ، عقیدہ، اور عبادات کی آزادی ہو، ہر شخص کے انفرادی تشخص، اور احترام کو یقینی بنایا جائے، اور ملک کی سالمیت ، اوریکجہتی کو قائم و دائم رکھا جائے‘‘۔
سامعین ِکرام !
الغرض:۔۔۔ ۲۶؍ جنوری ہمیں یاد دلاتا ہے، کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، یہاں کے دستور میں ، تمام فرقے، اور مذہب کے لوگوں کو ، یکساں حقوق دئے گئے ہیں ، اور ملک کی ترقی کے لئے، آئین کی بالا دستی ، اور قانون کی حکمرانی ضروری ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لئے آئیے ، ہم عہد کرتے ہیں، کہ آئین کے تحفظ ، اور قانون کی حکمرانی کے لئے ، ہمیں جو بھی قربانی دینی پڑیگی ، ہم اس سے گریز نہیں کریں گے ۔
یہ نفرت بری ہے نہ پالو اسے ۔۔۔۔۔۔۔۔دلوں میں خلِش ہے نکالو اسے
نہ تیرا نہ میرا نہ اِسکا نہ اُس کا ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وطن ہے ہم سب کا بچا لو اسے